اِسلامی معیشت اور حلال و حرام کا تصور

حلال و حرام کے دو اَساسی اُصول اِسلام میں حلال و حرام کو سمجھنے کے لیے دو چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے:
1 حلال و حرام کا تعلق شریعت و قانون سازی کے اعتبار سے بھی اور اجر و ثواب یا گناہ و عقاب کے اعتبار سے بھی فقط اور فقط اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ حلال کمانے اور حرام سے بچنے کا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کا خوف نہ ہو۔

معاملات کے بارے میں اسلام کا مزاج

اسلام کے قوانین معاشرے کے پورے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ قانون کا مزاج خشک ہوتا ہے۔ ان دو اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بے شمار شعبوں میں سے آج ہم معاملات کے بارے میں اسلامی قانون کے مزاج پر نصوص شرعیہ کی روشنی میں نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اسلام نے معاملات میں مصلحت عامہ اور انصاف کی رعایت کو بنیادی اہمیت دی ہے اور اسی کو معاملات سے متعلق تمام تصرفات کی بنیاد قرار دیا ہے۔

اسلامی معیشت کے بنیادی تصورات

کسی بھی چیز کے عملی پہلوؤں پر غور کرنے سے قبل اس کے بنیادی تصورات سے آگہی ضروری ہوتی ہے۔ کسی بھی پریکٹیکل کام سے پہلے نظریہ اور Concept ضرور ہوتا ہے اور بلاشبہ نظریہ کی وضاحت پریکٹیکل سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح اقتصادی نظام اور اس کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کا جو حل اسلام نے پیش کیا ہے اس کی جانکاری سے پہلے ذہن میں اسلامی معیشت و اقتصاد کا تصور واضح ہونا اور یہ بات معلوم ہونا از حد ضروری ہے کہ اسلامی اقتصاد و معیشت کس چیز کا نام ہے؟ اس کی کیا بنیادی خصوصیات ہیں؟

اسلامی بزنس ماڈل

اسلامی بزنس ماڈل کے خدوخال پر مشتمل خاکہ، اسلامک اکنامکس کے ماہرین کی تحریرات اور تقریظات میں متفرق طور پر مل جاتا ہے۔ دوران مطالعہ ان مختلف شہ پاروں کے متعلق خیال ہوا، ان کو یکجا سہل انداز میں پیش کرنے کے لیے ’’اسلامی بزنس ماڈل‘‘ کے عنوان سے ایک خاکہ علماء اور تاجروں کے سامنے پیش کیا جائے، جس میں یہ بات واضح کی جائے کہ اسلام کا معاشی نظام اور اس کے تحت بننے والا بزنس ماڈل موجودہ زمانے میں تجارت اور کاروبار کے تقاضوں اور اس کے لیے تمام ضروری عوامل پر مشتمل ہے۔

کمپنی کا وژن اور مشن کیسا ہونا چاہیے؟

کاروباری دنیا کا عام رواج ہے کوئی بزنس شروع کیا جاتا ہے تو اس کا وژن اور مشن ضرور متعین کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد کمپنی کے اہداف اور مارکیٹ میں داخل ہونے کی وجہ بیان کرنی ہوتی ہے۔اس کے لیے ایک خاکہ سا پیش کیا جاتا ہے۔ وژن اور مشن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ طویل المدتی (Long Term) ہوتا ہے۔ یہ ادارے کی بنیاد ہوتا ہے۔ اسے بنانے اور حتمی قرار دینے سے پہلے بہت غوروفکر اور سوچ وبچار کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ آپ ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس پر آپ کے مستقبل کی عمارت کھڑی ہوگی۔ اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی یا ترچھی رکھ دی گئی تو اس کے نتیجے سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ اس لیے وژن اور مشن بہت سوچ سمجھ کر بنایا جاتا ہے۔

اسلامی قانونِ میراث اورہماراطرز عمل

فکری زوال اور اسلام کے ہمہ گیر تصور کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی مرضی کے مطابق اسلام پر عمل کرنے کے لیے اپنی ترجیحات متعین کر لی ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی ایک مثال اسلام کا قانون میراث بھی ہے۔ آج مسلم معاشرے میں اس سے بے انتہا غفلت برتی جا رہی ہے۔ جب بات میراث کی شریعت کے مطابق تقسیم کی آتی ہے تو قسم قسم کی باتیں کی جاتی ہیں، بے شمار عذر بیان کیے جاتے ہیں۔ آنے والی سطور میں ان اعذار کو بیان کر کے ان کی حقیقت واضح کی جائے گی، اس سے قبل شریعت اسلامیہ کے مطابق میراث کی تقسیم کی ضرورت و اہمیت سے متعلق چند باتیں ملاحظہ فرمائیں۔

مارکیٹنگ ایسے بھی ممکن ہے!

چند ہفتے پہلے SCS میں ایک کاروباری شخص تشریف لائے۔سلام دعا ہوئی ۔ اس کے بعد وہ گویا ہوئے کہ وہ ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے سوال کی طرف آنے کے لیے پورا پس منظر ذکر کیا جو کچھ یوں تھا۔ میرا ایڈورٹائزنگ کا کاروبار ہے۔ میرے پاس سائن بورڈ ہوتے ہیں اور کمپنیوں کو کرایے پر دیتا ہوں۔ کمپنیاں ان پر اپنی تشہیری اسکنز (بینرز) لگاتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج کل تشہیری بینرز غیر شرعی چیزوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

مسلمان تاجر، اسلام کا داعی

مشہورمغربی مصنف سٹین لی پول نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیاہے: ’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اورکبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضاء تک پہنچے اورحاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔وہ عزت والے تھے اورعزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھے بلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی تھی وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘

اسلامی مالیاتی نظام کی طرف مثبت پیش رفت

گزشتہ چند ہفتوں سے مملکت خداداپاکستان میں حکومتی حلقوں میں اسلامی مالیاتی نظام کی اہمیت ،ملکی سطح پر عملی نفاذ کے لیے جامع لائحہ عمل کی تیاری،اس کام کے لیے ماہرین شریعت ومعیشت پر مشتمل کمیٹی کا قیام اور چند دن قبل اخبارات کی زینت بننے والی یہ خوش آئند خبرکہ شیخ الاسلام حضر ت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ بورڈ کی چیئرمین شپ قبول کرنا۔ یہ سب ہی خوش آئند ہیں۔ کیونکہ مملکت خداداکے معاشی نظام کے لیے یہ بے حد ضروری ہے۔حکومتی سطح پر اس آواز کے اٹھنے میں معاشرے کے تمام طبقات نے اپنا حصہ اپنے کردار،دعا اوردوا کے ذریعے ڈالا ہے ۔

دورِ حاضر کی بعض ناجائز تجارتی صورتیں

اللہ رب العزت کا فرمان ہے: ’’اے رسولو! پاکیزہ نفیس چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بلاشبہ میں تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہوں۔‘‘ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے تمام انبیاء اور پیغمبروں کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایتیں دی ہیں:
1 حلال وپاکیزہ کھانا کھاؤ
2    نیک وصالح عمل کرو

سودے کی واپسی: راہ اعتدال کیا ہے؟

گذشتہ ہفتے ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں جانا ہوا۔ اشیا خریدنے کے بعد کیشئر کے پاس ادائیگی کے لیے کھڑا ہوا تھا تو سامنے لگے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا: ’’خریدا ہوا سامان ہرگز واپس نہیں ہو گا۔‘‘ اس طرح کے بورڈ تو کئی جگہ نظر آتے ہیں، آج مجھے یکایک خیال آیا اور میں نے کیشئر سے کہا: بہت سخت اصول لکھ کر لگایا ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس میں کچھ نرمی ہونی چاہیے۔