انوکھے معاشی فیصلے ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل

ایک 25 ہزار ماہانہ کمانے والے ملازمت پیشہ شخص کو اگر بزنس کی سوجھے گی تو وہ کم از کم نفع کی توقع پر ملازمت چھوڑ دے گا؟ اتنی بات تو طے ہے کہ وہ 25 ہزار سے کم نفع پر تو بالکل تیار نہ ہو گا۔ کیونکہ بزنس میں نفع کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ گویا بزنس میں 25 ہزار کا ملنا ’’رسکی‘‘ Risky ہے، جبکہ ملازمت میں یقینی۔ تو Risky 25 ہزار کے لیے کوئی یقینی 25 ہزار کیوں چھوڑے گا؟ فرض کریں کہ 30 ہزار نفع ہو تو کیا ملازم نوکری چھوڑ دے گا؟ بظاہر وہ نہیں چھوڑے گا، کیونکہ 8 گھنٹے کی ملازمت کے ساتھ وہ یقینا5 ، 10 ہزار کا پارٹ ٹائم کام بھی کر سکتا ہے۔

کامیابی کا نسخہ:منصوبہ بندی، پختہ عمل اور تلافی

انسان گو اشرف المخلوقات ہے لیکن یہ خطا کا پتلا بھی ہے۔ اس کی سوچ بلند اور بے عیب ہو سکتی ہے، لیکن عمل عیب سے خالی نہیں ہوتا۔ صرف انبیاء علیہم السلام کا کامل گروہ ہی اس قاعدے سے مستثنی ہے ورنہ بڑے بڑے فلسفیوں، دانشوروں اور آج کے زمانے کے انٹلیکٹس کا عمل کوتاہیوں کا مجموعہ ہی نظر آتا ہے۔ عصر حاضر میں مینجمنٹ کی جدید تکنیکوں کے ذریعے کوشش کی جاتی ہے کہ کوتاہیاں کم سے کم ہوں۔

دوطرفہ تعلقات کیسے نبھائے جائیں؟

جب دو یا زیادہ اشخاص یا ادارے کسی رشتے یا کسی معاہدے کے تحت مشترکہ امور انجام دیتے ہیں تو کام میں رکاوٹ آنا قدرتی امر ہے۔ دنیا میں ہر دو افراد کی نفسیات اور مزاج میں فرق ہے۔پھر کوئی شخص بھی کسی کے ماتحت چلنے پر خوشی سے تیار نہیں ہوتا،لہذا ایسے حالات میں مشترکہ مہم کی کامیابی کے لیے فریقین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروٹوکول یا رعایت کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے کے حقوق بڑھ چڑھ کر ادا کریں اور اپنے حقوق میں کوتاہی پر تحمل کریں تاکہ ایشوز پیدا ہی نہ ہونے پائیں۔اسی طرح خدانخواستہ کبھی لاشعوری طور پر کوئی ایشو پیدا ہو جائے تو اسے حل کرنے کے

رمضان :نفع کی دوڑ اک نفسیاتی کمزوری

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مارکیٹ میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں ۔اوقات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ موسم کی حدت اورپیاس کے شکار دکانداروں اورسلیز مینز کا لہجہ اورانداز گفتگوبھی کافی بدل جاتاہے۔بازار میں رمضان کااحترام واضح طورپر محسوس کیاجاسکتاہے۔لوگوں کی گفتگومیں باربار رمضان اورروزے کاواسطہ دیا جاتا ہے۔ افطار کا جگہ جگہ انتظام کیاجاتاہے۔چھ روزہ اوردس روزہ تراویح جگہ جگہ شروع کردی جاتی ہے،تاکہ تاجرحضرات

مال کی سیکورٹی کا یقینی طریقہ

سے16 سال مادیت پر مبنی نصاب پڑھنے کے بعد روحانی حقائق کا فوری ادراک ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔ چنانچہ جب اسلام کی تعلیمات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سودی مال کی وصولی کے باوجود مال کم ہو جاتا ہے اور زکوۃ میں کچھ مال نکال دینے کے باوجود مال بڑھ جاتا ہے، تو سادے جمع تفریق سے اسے سمجھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لیے تو اس بات پر یقین کرنا کچھ مشکل نہیں،البتہ مادیت زدہ مسلمانوں کے لیے چند مثالیں ذکر کی جا سکتی ہیں جس سے بات سمجھنا شاید آسان ہو جائے۔

نفع کی شرح کیاہو؟

٭…شریعت نے نفع کی متعین شرح مقرر کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ کے حالات اور گاہک کی سمجھ پر چھوڑ دیا ہے، اسی کوطلب ورسد کا اصول کہا جاتا ہے
٭…اسلام نے مصنوعی طور پر قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکمت بھری رکاوٹیں کھڑی ہیں
ایک سوال اکثر پوچھا جاتاہے کہ اسلام میں جائز منافع کسے کہتے ہیں ؟یا نفع کتنے فیصد تک رکھا جا سکتا ہے؟