شریعہ اینڈ بزنس یہ جو آپ نے فرمایا کہ پروسیجرز اور مینوئلز بنا دیتے ہیں اور ان پر کام چلتا رہتا ہے۔ کیا یہ مینوئلز کسی اسٹینڈرڈ پر بنے ہوئے ہیں یا ہر بینک کے اپنے اپنے ہوتے ہیں کہ ہر بینک اپنی پروڈکٹ کے حساب سے اسے تیار کر رہا ہوتا ہے؟

مفتی محمد حسان کلیم
دیکھیں! اسٹیٹ بینک نے پہلے نمونے کے کچھ کنٹریکٹس وغیرہ دیے تھے، تاہم اسٹیٹ بینک نے اس چیز کا پابند نہیں کیا تھا کہ آپ صرف اسی کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے، لیکن اسٹیٹ بینک نے یہ کہا تھا کہ یہ بطور نمونہ ہیں، ان کو دیکھ کر آپ ڈیولپ کر سکتے ہیں۔ پھر آئندہ چل کر اسٹیٹ بینک نے یہ کیا کہ جو بھی کوئی پروڈکٹ بنائیں گے تو اپنے شریعہ ڈیپارٹمنٹ سے اس کی منظوری لیں گے۔ پھر وہ مکمل طریقہ کار ہمیں بھی بتائیں گے۔

اُس وقت تو اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ اتنا فعّال نہیں تھا، پھر ماشاء اللہ وہ بن گیا اور اس وقت وہ ایک اچھا اور فعّال شریعہ بورڈ ہے۔ اب اسلامی بینک جو بھی نئی پروڈکٹس بناتے ہیں، اس سے متعلقہ تمام چیزیں اسٹیٹ بینک کو پیش کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک اس کو دیکھتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد اگر وہ محسوس کرے کہ اس میں بہت ہی کوئی ’’منفرد‘‘ بات ہے، جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی تو ممکن ہے وہ اپنے شریعہ بورڈ کو بھی دیتا ہو۔

دوسری بات یہ کہ ہم ایک محدود بازار کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس میں اسلامی بینکوں میں سے جو بھی کوئی نیا کام کرے گا تو دوسرے بینکوں کو بھی اس کی اطلاع ہو گی، لہذا چیلنج ہو جانے کے خدشے کے پیش نظر کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ’’معاییر‘‘ کے مطابق رکھا جائے۔ ویسے تو شریعہ بورڈ اس پر غور کرتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاییر کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

یہ تو وہ چیزیں ہیں جو یکسا نیت پیدا کرتی ہیں، لیکن سو فیصد یکسانیت نہ مطلوب ہے اورنہ موجود ہے، مثلاً: ایک مرابحہ کا طریق کار ہے۔ اس میں دس مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اب ایک بینک اُس کی دس کی دس صورتیں کر رہا ہو گا، جبکہ دوسراان میں سے پانچ کر رہا ہو گا، لیکن مرابحہ اس اعتبار سے کہ وہ مرابحہ ہے،ا پنے تمام شرائط کے ہمراہ موجودہ ہوگا۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز ابتدا میں جب نئی ہوتی ہے اور کسی ایک بینک نے کی تو آہستہ آہستہ دوسرے بینک بھی اُسے اختیار کر لیتے ہیں۔ یوں سارے معاملات قریب قریب ایک جیسے چل رہے ہوتے ہیں۔ اگر ایک بینک نے کوئی معاملہ کیا اور دوسرے نے اس پر اعتراض کر دیا تو اس صورت میں اگر بینک نے ایک کسٹمر کے ساتھ معاملہ کیا جس میں دوسرے بینک کا کوئی اشتراک نہیں ہے تو اس میں یقیناً وہ دوسرے سے منفرد ہو جائے گا اس صورت میں دوسروں کے برابر ہونا ضروری نہیں ہو گا۔ مگر جب ایسے معاملے کا تعلق دوسرے بینکوں کے ساتھ بھی ہو تو پھر معاملات میں برابری اور یکسانیت ضروری ہوتی ہے۔

شریعہ اینڈ بزنس
ایک سوال جو عمومی دلچسپی کا ہے کہ اسلامی بینکنگ کے لیے ایک ڈپٹی گورنر علیحدہ سے آ گیا ہے اور انہوں نے باقاعدہ ایک بورڈ تشکیل دیا ہے اور اخبارات میں خبریں بھی اس حوالے سے چھپی ہیں کہ پاکستان کے پورے بینکنگ سسٹم کو اسلامائز کریں گے۔ یہ کام بڑے پیمانے پر ہو رہا تھا اور اس میں سارے بینکوں کی پروڈکٹس وغیرہ کے بارے میں بھی گفتگو چل رہی تھی، اس وقت یہ کام کس لیول تک پہنچ چکا ہے؟

مفتی محمد حسان کلیم
جی ہاں! ایک اسٹینڈنگ کمیٹی بنی ہوئی ہے جو اس بارے میں تجاویز حکومت کے سامنے دے گی کہ کس ملکی معیشت کو اسلامی احکام کے تحت لایا جائے، لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس کا یہ مینڈیٹ نہیں ہے کہ پورے بینکنگ کے نظام کو اسلامی بنایا جائے، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ جو اسلامی بینکنگ ہو رہی ہے، اس کو کیسے پروموٹ کیا جائے، اس کو کیسے ترقی دی جائے اور اس کے لیے کیسے آسانی پیدا کی جائے۔ اور کئی جگہ ڈپٹی گورنر صاحب نے یہ بات کہی تھی کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم 30 فیصد تک ہو جائے۔ تو یہ کوشش میرے خیال میں اس بارے میں نہیں ہو رہی کہ پورے نظام کو تبدیل کیا جائے، بلکہ یہ کوشش اس بارے میں ہو رہی ہے کہ جو اسلامی بنیادوں پر نظام کھڑا ہے، اس کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کر دیا جائے، ایک متبادل نظام کو کھڑا کر دیا جائے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پھر وہ خود ہی اگر بڑھتا ہے تو بڑھ جائے گا۔

شریعہ اینڈ بزنس
ہماری اسلامی بینکنگ کی جو رپورٹس ہیں، ان کے مطابق یہ پتا چلتا ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں اس کا 10 فیصد تک حصہ ہے، تو ایک اسلامی ملک جس کی بنیاد ہی اسلام تھی اس کے بارے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان میں صرف 10 فیصد اسلامی بینکنگ کا حصہ کیوں ہے؟ جبکہ یہاں تو70 بلکہ 98 فیصد تک ہونا چاہیے تھا۔ اس کی کیا اہم اور بنیادی وجوہات ہیں؟

مفتی محمد حسان کلیم
مجھے جو اس کی وجہ سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ یہاں پر پہلے صرف کنونشنل بینکنگ ہی تھی۔ چنانچہ کنونشنل بینک یہاں بہت بڑے ہیں۔ ملکی معیشت انہی کے ہاتھ میں تھی اور جو قوانین بنے ہوئے ہیں وہ بھی بنیادی طور پر عام بینکنگ اور سودی بینکنگ کے لیے بنے ہوئے ہیں۔ اور انہی قوانین کی دراڑوں میں اور جو گنجائش قوانین میں ہوتی ہے، ان ہی کے اندر رہتے ہوئے اسلامی بینکنگ کو شروع کیا گیا۔ تو ان gaps کے اندر اسلامی بینکنگ بڑھنا شروع ہوئی اور تعارف میں وقت لگا، اس لیے کہ اسلامی بینکنگ کی Reach کم ہے، لوگوں میں اس کا تعارف کم ہے۔ اور اسلامی بینکنگ کا چونکہ نیٹ ورک چھوٹا تھا، اس لیے ابھی 10 فیصد تک پہنچا ہے۔ ایک نمایاں مقام تک پہنچنے کے لیے کافی سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے اور ابتدائی سالوں میں اس کی گروتھ آپ کو سست نظر آئے گی اور ترقی آہستہ نظر آئے گی، لیکن قبولیت کے ایک درجے تک پہنچنے کے بعد پھر وہ بہت تیزی سے ترقی کرتی ہے۔ امید یہ ہے کہ اگر یہ صحیح طریقے سے چلے تو ان شاء اللہ کچھ سالوں کے اندر یہ بہت تیزی سے grow کرے گی اور اس کا بینکنگ سیکٹر میں ایک اچھا خاصہ حصہ ہو جائے گا۔ اس کی میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں۔

2000 ء سے میں اسلامی بینکنگ سے وابستہ ہوں۔ ابتدا میں ہمارے پاس صرف ایک ہی پروڈکٹ ہوتی تھی جس کا ہم بہت زیادہ استعمال کرتے تھے ، وہ تھی:’’مرابحہ۔‘‘ ڈیپازٹ سائڈ پر ہم ایک پول بنا کر رکھتے تھے جو مضاربہ کی بنیاد پر ہوتا تھا، وہاں سے مضاربہ کی بنیاد پر پیسے لیتے تھے اور نقد چیز خرید کر ادھار پر بیچ دیتے تھے، بس ہمارا یہی کام تھا، لیکن بڑی بڑی ٹرانزکشنز اس وقت نہیں ہو رہی تھیں، مثلاً: کوئی نیا کارخانہ لگ رہا ہے، اس کام کے لیے اسلامی بینکنگ کا پیسہ نہیں جا رہا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ پروڈکٹس آنا شروع ہوئیں۔ اس کے بعد اجارے اور leasing کی پروڈکٹ آئی، ہم raw material کے بجائے مشنریز کو فنانس کرنے لگے۔ پھر اس کے ساتھ diminishing musharakah (مشارکہ متناقصہ)کی پروڈکٹ آئی، جس کے ذریعے ہم بڑی مشنری اور ہاؤسنگ کو بھی فائنانس کرنے لگے۔

پھر اسی کے ساتھ سلم اور استصناع کی پروڈکٹس آئیں اور ہم ایڈوانس پیسے بھی دینے لگے یا چلتے ہوئے کاروبار کے اندر ہم حصہ لینے لگے، پھر امپورٹ اور ایکسپورٹ کے اندر آنے لگے، پھر کنزیومر بینکنگ کے اندر اسلامی بینکس آنے لگے۔ ابھی کل پرسوں کی رپورٹ ہے، ٹھیک ہے کہ مجموعی طور پر اسلامی بینکوں کا حجم کم ہے لیکن ان گزشتہ سالوں کے اندر جتنا بہتر کام ہاؤسنگ کے حوالے سے اسلامی بینکوں نے کیا ہے، دوسرے بینکوں نے نہیںکیا۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسرے بینکوں کے مقابلے میں ان چند سالوں کے اندر اسلامی بینکوں سے لوگوں نے ہاؤسنگ کی سہولت زیادہ لی ہے۔ گاڑیوں کی لیزنگ کے اندر اسلامی بینکوں کا اچھا خاصہ حجم ہے۔ پہلے ہمارے پاس running finance کا کوئی متبادل نہیں تھا، اب اللہ کا شکر ہے مشارکہ کے ذریعے کسی حد تک رننگ فنانس کی facility حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک کم ریٹ ایکسپورٹ ری فنانس کا ایک طریقۂ کار دیتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بینکس آگے ایکسپورٹر کو کم نفع کے اوپر قرضہ جاری کر دے۔ یہ طریقۂ کار کچھ سالوں سے اسلامی بینکوں کے پاس بھی آ گیا ہے۔ (جاری ہے)