خطیب صاحب بیان فرما رہے تھے۔ تاجرو! اپنے اندر امانت اور سچائی پیدا کرو۔ جو تاجر امانت دار، سچا ہو گا، وہ قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہداء کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اتنی بڑی فضیلت سن کر محسن کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ سوچنے لگا میں ضرور اس فضیلت کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس فضیلت کا مستحق بنانے کی کوشش کروں گا، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی سوچنے لگا کہ سچائی تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی سے جھوٹ نہیں بولنا،


٭… امانت کو رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ امانت کے مال کو اس طرح علیحدہ رکھیں کہ اپنے مال سے الگ رہے ٭… اگر بغیر معاوضے کے کوئی چیز استعمال کے لیے دی جائے تو اسے ’’عاریت‘‘ کہتے ہیں۔ عاریت پر دیا گیا مال بھی لینے والے کے پاس امانت ہے۔ اسے مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہو گا ٭

لیکن یہ امانت کا کیا مطلب ہے؟ میں اپنی زندگی میں کس کس جگہ ایک امین کی حیثیت سے ہوتا ہوں؟ اگر میرے سامنے ایک خاکہ آ جائے تو میں ان شاء اللہ ضرور اس پر عمل کروں گا کیونکہ مجھے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ اپنا حشر کروانا ہے۔ یہ سوچ کر محسن نماز کے بعد خطیب صاحب سے ملا۔ ان سے رہنمائی کی درخواست کی۔ خطیب صاحب نے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی اگر اپنی چیز میرے پاس رکھوا دے تو میں امانت سے رکھوں، اس میں کمی نہ کروں اور واپس کردوں، بس یہی یہ امانت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امانت اس سے زیادہ وسیع معانی رکھتی ہے۔

آئیے! ہم بھی دیکھتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں کب ہم امین ہوتے ہیں اور امین ہونے کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ کیونکہ حدیث میں فرمایا گیا ہے: ’’جس میں امانت نہیں، اس میں ایمان نہیں‘‘، یعنی امانت دار ہونا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ کون کون سی صورتیں امانت میں شامل ہیں؟ ان میں سے کچھ کا مطالعہ کرنے سے پہلے ہم امانت کا حکم دیکھتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس دوسرے کا مال ہے تو اس کی چند حیثیتیں ہو سکتی ہیں:

امانت
امانت کی صورت میں ہمارے ذمہ لازم ہے کہ مالک کی مرضی کے مطابق اس مال کو رکھیں، استعمال کریں، حفاظت کریں۔ اس کی حفاظت میں اپنی بہترین صلاحیتیں لگائیں۔ لاپروائی کا مظاہرہ نہ کریں۔ مالک کی مرضی کا خیال رکھنے کے باوجود، اچھے طریقے سے حفاظت کا انتظام کرنے کے باوجود بھی اگر وہ چیز ضائع ہو جائے تو امین اس چیز کا تاوان ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ امانت کا مال اگر اپنے مال سے ملا لیا، مثلاً: کسی نے 1000 روپے دیے کہ مدرسے میں دے دینا۔ ہم نے ان پیسوں کو اپنے پیسوں کے ساتھ رکھ لیا۔ پھر خدانخواستہ پرس گر گیا، چھن گیا یا چوری ہو گیا۔ اب بہرحال! ہم ذمہ دار ہو جائیں گے۔ کیونکہ اپنے پیسوں کے ساتھ ملا لینے کی وجہ سے وہ امانت ہماری ’’ذمہ داری‘‘ میں آ گئی تھی۔ امانت کو رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ امانت کے مال کو اس طرح علیحدہ رکھیں کہ اپنے مال سے الگ رہے۔

ذمہ داری (Liability)
ہمارے پاس اگر کسی دوسرے کا مال ہے تواس کی ایک صورت ’’ذمہ داری‘‘ کی بھی ہے۔ ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں وہ مال ہر حال میں واپس کرنا ہے۔ ذمہ داری میں مال آنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً: اس کی ایک صورت قرض یا ادھار ہے۔ اگر میں نے کسی سے قرض لیا ہے یا کسی سے ادھار چیز خریدی ہے تو وہ ادھار میری ذمہ داری میں ہے۔ وہ بہرصورت مجھے ادا کرنا ہے۔ اس کی ایک صورت کسی سے مال چھیننا یا بغیر رضامندی کے حاصل کرنا بھی ہے۔ چوری، چھینا جھپٹی تو اس کی مثالیں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم نے اپنے کسی دوست، بھائی یا پڑوسی سے کوئی چیز بغیر اس کی اجازت و رضامندی کے لے لی تو وہ بھی ہماری ذمہ داری میں آ جاتی ہے، جیسے: مارکیٹ میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اوزار برابر والی دکان سے لیتے ہیں۔ اگر وہ مالک کی رضامندی سے لیے تو ٹھیک، اگر اس کی دلی رضامندی نہ ہوئی تو لیا ہوا سامان ہمارے ذمہ میں آ گیا، دوسرے کے مال کا اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنے کا گناہ الگ، لہذا اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جب تک واضح اجازت نہ ہو یا بے تکلفی ایسی نہ ہو کہ سامنے والا ناپسند نہیں کرے گا، دوسرے کی چیزوں کو استعمال کرنے میں احتیاط کریں۔

اسی طرح امانت کے طور پر ہمارے پاس موجود مال میں اگر ہم نے مالک کی مرضی کا خیال نہیں رکھا تو وہ مال بھی ہمارے ذمے میں آ جائے گا۔ اس کی عام مثال یہ ہے کہ میں نے کہا کہ ذرا یہ اوزار مجھے ایک دن کے لیے دے دینا، کل واپس کردوں گا۔ کل بھی گزر گیا، سامان واپس نہیںکیا یا کہا تھا کہ اس سے یہ کام کرنا ہے یا میں خود اس کو استعمال کروں گا۔ پھر کوئی اور کام کیا یا دوسرے کو استعمال کے لیے دے دیا۔ ان سب صورتوں میں مالک کی مرضی کے خلاف استعمال کیا تو وہ چیز جو امانت کے طور پر تھی، اب ذمے داری میں آ گئی۔ ذمے داری میں چیز کا حکم یہ ہے کہ جس کے قبضے میں ہے، اگر اس میں نقصان آ گیا تو وہ ذمہ دار ہو گا۔ مالک اس نقصان کو پورا کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے کا مال نہ تو دوسرے کی مرضی کے بغیر استعمال کریں اور نہ ہی استعمال کے دوران مالک کی مرضی کی خلاف ورزی کریں۔ استعمال پورا ہوتے ہی واپس کر دیں۔ اس حوالے سے واضح حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ اب آئیے! کاروباری معاملات میں امانت کی کچھ صورتوں کا جائزہ لیتے ہیں:

سربراہ کا مال ماتحتوں کے پاس
ایک عام صورت امانت کی بیٹے کے پاس موجود مال ہے۔ اسی طرح بیوی کے پاس شوہر کا مال یا بھائی کے پاس بھائی کا ما ل ہے۔ یہ مال بیٹے، بھائی یا بیوی کے پاس امانت کے طور پر ہے۔ چاہے وہ مال کاروبار میں ساتھ ہونے کی وجہ سے ہو یا مثلاً: باپ نے یا شوہر نے دیا ہے، لیکن مالک نہیں بنایا، مثلاً: گاڑی دی ہوئی ہے یا کوئی استعمال کا سامان دیا ہوا ہے، یہ چیز بیٹے، بھائی یا بیوی کے ہاتھ میں امانت ہی ہے۔ اسے والد، بھائی اور شوہر ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شرعاً ضروری ہے۔

بیعانہ
کاروباری معاملات میں یہ عام رواج ہے کہ جب کوئی معاملہ ہوتا ہے تو کچھ رقم اسی وقت لے لی جاتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معاملہ کرنے والی پارٹیاں اس معاملے پر قائم رہیں۔ اگر معاملہ ہو جاتا ہے تو وہ رقم حساب میں آ جاتی ہے، مثلاً: بازار میں ایک گاڑی پسند آ گئی۔ گاڑی 5 لاکھ کی ہے۔ اب مالک کو 5 ہزار دے دیے کہ باقی بعد میں دے دوں گا۔ اگر یہ سودا ہو جائے تو خریدار کے ذمے 4 لاکھ 95 ہزار رہ جاتے ہیں۔ سودا پورا ہونے سے پہلے تک یہ 5 ہزار بیچنے والے کے پاس امانت ہیں۔ اگر سودا نہ ہو سکے تو یہ رقم واپس کرنا ضروری رہے گا۔

کرایہ دار کے پاس چیز
کرایہ داری کے معاملے میں متعین کرایہ پر مالک اپنا مال کرایہ دار کو استعمال کے لیے دیتا ہے۔ یہ مال کرایہ دار کے پاس امانت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے جس استعمال کے لیے دیا ہے، اسی استعمال میں اس چیز کو لائے، مثلاً: دکان تجارت کے لیے دی، صنعت کاری کے لیے نہیں دی، اب کرایہ دار اس دکان میں مشینیں لگا لے تو اس کے لیے یہ شرعا جائز نہیں ہو گا۔

عاریت کا مال
اگر بغیر معاوضے کے کوئی چیز استعمال کے لیے دی جائے تو اسے ’’عاریت‘‘ کہتے ہیں۔ عاریت پر دیا گیا مال بھی لینے والے کے پاس امانت ہے۔ اسے مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہو گا۔ ملازم یا سروس دینے والے کے پاس سامان

ملازم کے پاس جو اشیا مالک کی ہیں، وہ بھی امانت ہیں۔ اسی طرح میری گاڑی خراب ہو گئی۔ میں مکینک کے پاس لے گیا، اس نے کہا کہ دو دن یہیں چھوڑنی پڑے گی۔ یہ گاڑی مکینک کے پاس امانت ہے۔ اس کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے مالک کی مرضی کے مطابق ہی استعمال کرنا ضروری ہو گا۔

وکیل کے پاس مال
میں نے اپنا موبائل دیا کہ تم مارکیٹ کو اچھا جانتے ہو، یہ موبائل بکوا دو اور موبائل دے دیا۔ یہ موبائل وکیل کے پاس امانت ہے۔

شریک کے پاس مال
ایک شریک کا دوسرے شریک کے پاس مال بھی امانت ہے۔ چاہے وہ شرکت ملکیت میں ہو، جیسے: ایک کپڑے کی لاٹ اچھی قیمت پر مل رہی تھی۔ میں نے اور میرے دوست نے آدھے آدھے پیسے ملائے اور لاٹ لے لی۔ وہ لاٹ میرے پاس ہے۔ تو دوست کی آدھی لاٹ میرے پاس امانت ہے۔ اس کی حفاظت میرے ذمہ لازم رہے گی۔ شراکت داری کی ایک صورت کاروباری ہے، مثلاً: میں نے اور میرے دوست نے 5,5 لاکھ ملا کر کاروبار شروع کیا۔ میں کاروبار کے حسابات دیکھتا ہوں، خریداری کرتا ہوں۔ دوست دکان داری کرتا ہے۔ اب جو مال کاروبار کا میرے پاس ہے وہ میرے پاس امانت ہے۔ جو دوست کے پاس ہے وہ بھی امانت ہے۔ ایک دوسرے کے مال میں ہم امین ہیں۔

مضاربت کا مال
وہ صورت جس میں کاروبار میں پیسے لگائے، مثلاً: یہ 10 لاکھ روپے لو اور کاروبار کرو۔ جو نفع ہو گا وہ آدھا آدھا کر لیں گے۔ اب کام کرنے والے کے پاس مال امانت ہے۔ اسے مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ضروری ہو گا۔

متولی کے پاس وقف کا مال
وقف کے نگران کے پاس موجود وقف کا مال امانت ہے۔ جیسے مسجد کمیٹی کے پاس چندے کا مال ہے یا مدرسے کی انتظامیہ کے پاس موجود مال ہے۔ اس مال کو دینے والوں کی ہدایات کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہو گا۔

رہن کے طور پر رکھی ہوئی چیز
ایک آدمی قرض لینے آیا یا ادھار پر مال خریدنے آیا۔ دینے والے نے کہا کہ کوئی چیز اپنے ادھار کے بدلے میں رہن کے طور پر رکھواؤ۔ اس نے رہن کے طور پر کوئی چیز کھوا دی، مثلا: 10 ہزار کا قرض لیا اور ایک موٹر سائیکل جس کی قیمت 20 ہزار تھی، وہ رہن کے طور پر رکھوا دی۔ اب اس موٹر سائیکل کی حفاظت اس کے ذمے ہے۔ اسے خود استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر حفاظت کے باوجود ضائع ہو جائے گی تو قرض کے بدلے میں ضائع ہو گی۔ اگرچہ قرض 10 ہزار تھا، لیکن مزید 10 ہزار اس کے ذمے نہیں آئیں گے کیونکہ قرض سے اوپر والی قیمت اس کے پاس امانت کے طور پر تھی۔ یہاں تک امانت کی کچھ صورتیں آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کن جگہوں پر ایک امین ہوتے ہیں۔ وہاں امانت کا حق ادا کرنا ایک شرعی تقاضا ہے۔ امانت کے معاملے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنا، ہمیں گناہ گار بنا سکتا ہے۔ گناہ کے ساتھ ساتھ وہ امانت ہماری ذمہ داری بھی بن جائے گی، وہ مال جس کے قدرتی نقصان کی ذمہ داری ہماری نہیں تھی، لیکن امانت کے معاملے میں غفلت کی وجہ سے وہ نقصان ہمار ے ذمے آ جائے گا اور ہمیں ہر حال میں وہ یا اس قیمت لوٹانی ہو گی۔ اللہ تعالی ہمیں حقیقی معنوں میں امین بنا دے۔ ہم بھی کل قیامت کے دن اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہو کر کامیاب ہو جائیں۔ ہمت کریں، قدم بڑھائیں اور عمل کریں۔ اللہ کے وعدے سچے ہیں۔ ہماری تبدیلی ہی معاشرے کی تبدیلی ہے۔