امین ایک کاشت کار ہے۔ اس کے پاس کاشت کاری کا 20 سال کا تجربہ ہے۔ ہمیشہ وہ دوسروں کی زمین پر ہی کام کرتا رہا۔ اس کے پاس اپنی زمین آج بھی نہیں ہے۔ جس زمین دار کی زمینوں پر پچھلی فصل میں کام کیا تھا، اس نے اس دفعہ امین سے معاہدہ نہیں کیا۔ مزید یہ کہ اس نے امین کے بقایا جات بھی روک لیے، حالانکہ وہ اپنے معاملات میں اپنے نام کی طرح امانت دار ہے۔ امین آج کل پریشان ہے کہ کس طرح اپنے لیے روزگار کا بندوبست کرے گا۔ وہ اپنے ایک دوست فضل سے اپنے حالات کا ذکر کرتا ہے۔


٭… ایک شخص کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے، لیکن کاشت کاری کی صلاحیت نہیں ہوتی، جبکہ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کھیتی باڑی کا تجربہ اور صلاحیت ہوتی ہے، مگر زمین نہیں ہوتی، ایسے موقع کے لیے شریعت نے مزارعت کا عقد عطا فرمایا ہے ٭

دوسری جانب نسیم ایک کمپنی میں اکاؤنٹینٹ ہے۔ اس کے والد کی جائیداد میں سے 20 ایکڑ زرعی زمین اسے وراثت میں ملی۔ یہ زمین نہر کے قریب ہے جس کی وجہ سے پانی کا مسئلہ نہیں ہے اور زمین ہے بھی بہت زرخیز۔ نسیم چاہتا ہے کہ یہ زمین اس کی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بن جائے۔ اسے یاد آتا ہے اس کا ایک کلاس فیلو فضل کاشت کار کا بیٹا تھا۔ نسیم کا فضل سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ وہ فضل سے اپنا مسئلہ شیئر کرتا ہے۔ فضل کہتا ہے میں خود تو کاشت کاری نہیں کر رہا۔ ہاں میرا ایک دوست امین ہے۔ وہ کاشت کار ہے۔ تجربہ کار ہے۔ امانت دار ہے۔ میں تمہارا اس سے رابطہ کروا دیتا ہوں۔ وہ بھی آج کل پریشان ہے کہ اس کے پاس کام نہیں ہے۔

امین اور نسیم کی ملاقات ہوتی ہے۔ نسیم کے پاس زمین ہے اور امین کے پاس کاشت کاری کا تجربہ ہے۔ یہ دونوں مل کر روزگار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر طے ہوتا ہے کہ نسیم اپنی زمین، امین کے حوالے کر دے گا۔ امین اس پر کاشت کاری کرے گا۔ پیدوار کو مارکیٹ میں فروخت کیا جائے گا۔ اس پیدوار کا 30 فیصد نسیم کا ہو گا اور 70 فیصد امین کا ہو گا۔ اس معاہدے کو عام زبان میں ’’زمین بٹائی پر دینا‘‘ کہتے ہیں۔ فقہ کی زبان میں یہ ’’مزارعت‘‘ کا معاملہ ہے۔ آئیے! مزارعت کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔

مزارعت کیا ہے؟
زمین کی پیداوار کی شراکت داری پر دو آدمیوں کا معاہدہ مزارعت ہے۔ جیسے ایک خالی زمین کسی کو دے کر یہ کہہ دینا کہ تم اس میں کھیتی باڑی کرو جو پیداوار ہو گی اس میں سے 50 فیصد حصہ تمہارا ہو گا اور باقی پیداوار میری ہو گی۔

مزارعت کی ضرورت
معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ زمین میں کھیتی باڑی کر کے فائدہ اٹھا سکے۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کھیتی باڑی کرنے کا تجربہ اور صلاحیت ہوتی ہے، لیکن ان کے پاس زمین نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں مزارعت ایک ایسا معاہدہ ہے جو دونوں کو فائدہ دے سکتا ہے۔ اور دونوں اس زمین سے فائدہ حاصل کر کے نفع کما سکتے ہیں۔

شریعت میں مزارعہ کا عقد
دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی مسلمانوں میں یہ معاہدہ عام رہا۔ مسلمان آپس میں یہ معاملہ کرتے رہے اور کماتے رہے۔ اس کی جو ظلم پر مبنی صورتیں تھیں مختلف مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو منع بھی فرما دیا۔ اس طرح یہ معاہدہ مسلمانوں کے درمیان جاری و ساری رہا۔

مزارعت کے معاملے کے بنیادی قواعد
مزارعت کے معاملے کے درست ہونے کے لیے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1 زمین کی صلاحیت
زمین کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ مزارعت کا معاملہ اسی زمین پر ہو سکتا ہے جو قابل کاشت ہو۔ ایسی زمین جو قابل کاشت نہ ہو، یعنی وہ پہاڑ ہے، بنجر ہے، دلدل ہے، اس پر مزارعت کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔ ایسی زمینوں کا مزارعت پر دینا درست نہیں ہو گا جن پر کاشت کاری نہیں ہو سکتی۔

2 مزارعت کا معاملہ کرنے والوں کی صلاحیت
مزارعت کا معاملہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملہ کرنے والے عقل و شعور رکھنے والے ہوں۔ بچہ، پاگل، مدہوش اور بے وقوف شخص یہ معاملہ نہیں کر سکتا۔

3 وقت کا تعین
مزارعت کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مزارعت کی مدت کا تعین ہو جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر صرف یہ کہہ دیا کہ یہ زمین مزارعت پر لے لو، لیکن مدت متعین نہیں کی تو یہ معاملہ درست نہ ہو گا۔

معاملے کی ضروری تفصیلات کا طے ہونا
معاملہ کی ضروری تفصیلات میں درج ذیل چیزوں کا طے ہونا ضروری ہے:
1 بیج کس کی طرف سے ہو گا؟
اصول دیکھا جائے تو پیدوار کی ملکیت اسی کی ہوتی ہے جس کا بیج ہو۔ یہاں آپس میں تقسیم مزارعہ کے معاہدے کی بنیاد پر ہو گی۔ یہ طے ہونا ضروری ہے کہ بیج کون دے گا، زمین دار یا کاشت کار؟

2 کیا چیز کاشت کی جائے گی؟
مارکیٹ میں مختلف اشیا کی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات طے نہ ہو کہ کیا چیز کاشت ہو گی تو دونوں کے درمیان جھگڑا ہو سکتا ہے۔ کہ یہ چیز کیوں کاشت کی، یہ کیوں نہ کی؟

3 پیداوار کی تقسیم کس تناسب سے ہو گی؟
یہ بات طے ہونا بھی معاہدے کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار کس تناسب سے تقسیم ہو گی۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ پیداوار کا مالک تو وہ ہے جو بیج کا مالک ہے۔ اب آپس میں تقسیم کی بنیاد مزارعت کا معاملہ ہے۔ جب معاملے میں ہی یہ طے نہ ہوا کہ تقسیم کس تناسب سے ہو گی تو معاملہ درست نہیں ہو گا۔

اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تقسیم کا اصول اس طرح طے ہو کہ اصل پیداوار میں دونوں شریک رہیں۔ تقسیم کا ایسا کوئی طریقہ طے کرنا درست نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں ایک ہی فریق پیداوار لے جائے اور دوسرا اس پیداوار میں شریک نہ رہے، جیسے: یہ کہا کہ زمین کی پیداوار میں سے 40 من میرے ہوں گے باقی تمہارے، یا باقی میں سے پھر آدھا آدھا کر لیں گے۔ اسی طرح اگر یہ کہا کہ زمین کی اس ٹکڑے کی پیداوار تو میری ہو گی، باقی تمہاری یا باقی میں سے آدھا آدھا کر لیں گے۔ ان صورتوں میں ممکن ہے کہ پیداوار ہو ہی 40 من یا صرف اسی ٹکڑے میں پیداوار ہو تو دوسرا فریق تو خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ اس لیے اس قسم کی شرط لگانا درست نہیں۔ بس پیداوار کا متناسب حصہ جیسے 50:50 طے کر لینا چاہیے۔

4 زمین کاشت کار کے حوالے کرنا
مزارعت کے معاملے میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ زمین دار زمین دے گا اور کاشت کار کھیتی باڑی کرے گا۔ اب کاشت کار اپنا کام اسی وقت کر سکتا ہے جب زمین دار زمین کاشت کار کے حوالے کر دے، لہذا اگر معاملہ ایسا ہوا کہ زمین دار نے کاشت کار کو زمین حوالے نہیں کی تو مزارعت کا معاملہ درست نہیں ہو گا۔

زمین کے علاوہ ضروری اشیا کی فراہمی
زمین کے بعد کاشت کاری کے لیے مختلف اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے: ٹریکٹر، بیج، کھاد، ٹیوب ویل، دیگر مشینریز وغیرہ۔ اس سلسلے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ہو تواسے علمائے کرام جائز قرار دیتے ہیں:
1 زمین دار بیج فراہم کرے اور باقی اشیا کا انتظام کاشت کار خود کرے۔
2 زمین دار صرف زمین دے دے اور کہہ دے باقی اشیا کا تم خود بندوبست کرو۔
3 کاشت کار صرف کام کرے اور زمین کے علاوہ دیگر اشیا کا انتظام بھی زمین دار ہی کرے۔
اس کے علاوہ کچھ اور صورتیں ہیں، مثلاً:کاشت کار صرف بیج لگائے، دیگر اشیا زمین دار فراہم کرے۔ یا… کوئی ایسی صورت جس میں کوئی شخص نہ کام کرے اور نہ ہی زمین مہیا کرے بلکہ بیج یا دیگر سامان فراہم کرکے مزارعت کا معاملہ کرنا چاہے تو ان جیسی صورتوں کو علمائے کرام درست قرار نہیں دیتے۔ (مزید دیکھئے: تسہیل بہشتی زیور، جلد2، صفحہ251 اور جدید معاملات کے شرعی احکام، جلد2، صفحہ 250)

مزارعت کا اختتام
مدت پوری ہونے کے ساتھ یا فریقین میں سے کسی کی موت کے ساتھ مزارعت کا معاملہ ختم ہوجائے گا۔ جب ہم ابتدا ئے اسلام میں سود کے بغیر معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو زراعت کے شعبے میں مزارعت کا معاملہ شراکت داری کی ایک صورت کے طو ر پر سامنے آتا ہے۔ جب اسلام نے سود کی سخت ممانعت فرمائی توایگری کلچر کے شعبے میں سرمائے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے باہمی بھائی چارہ اور ہمددردی کی بنیاد پر مزارعت کا معاہدہ دیا گیا۔ جب ایک مسلمان کے پاس زمین ہے، اس کے پاس اسے کاشت کرنے اور دیگر اشیا فراہم کرنے کے لئے سرمایہ نہیں ہے۔ جبکہ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس صلاحیتیں ہیں لیکن سرمایہ نہیں ہے کہ کوئی زمین کرائے پر لے کر کاشت کرے اور کماسکے۔ اس موقع پر شریعت مزارعت کی صورت میں حل فراہم کرتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شریعت کے ان معاملات کو سمجھیں، سیکھیںاور اپنی کاروباری زندگی میں انہیں عملی شکل میں نافذ کریں۔ ہم اگر اپنی کاروباری زندگی میں اسلام کے نفاذ میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانئے! جب حلال لقمہپیٹ میں جائے گا تو باقی دین پر عمل کرنا آسان ہی نہیں مزیدار ہو جائے گا، تو فکر کریں اور عہد کریں کہ ایک لقمہ بھی حرام کا اس پیٹ میں نہیں جائے گا۔ اللہ پاک ہماری مدد فرمائے اور مکمل دین پر چلنا ہمارے لئے آسان فرما دے، آمین۔