یہ کیا ہوتا ہے؟ جتنا بڑا مال دار، اتنا بڑا مقروض۔ جتنے زیادہ راحت کے اسباب، اتنا ہی بے سکونی کا گھپ اندھیرا۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ احساس کہ کچھ نہیں ہے۔ آمدن اور خرچ کے درمیان طویل فاصلے ہیں۔ گھر کا ماحول کاٹنے کو دوڑتا ہے تو باہر کی فضا میں دہشت سرسراتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ دولت ہوتے ہوئے بھی ہمارے نصیب میں وہ دولت کیوں نہیں ہے؟ سب کچھ ہاتھ میں ہوتے ہوئے ہم اسے ہاتھ کیوں نہیں لگا سکتے؟ بیماریوں نے ہمارے گھر کا رستہ کیوں دیکھ لیا ہے؟

دنیا بھر کے جادو کی بدبو ہمارے ہی آس پڑوس کیوں محسوس ہوتی ہے؟ یہ ہمارا عمومی احساس ہے اور بجا ہے۔ مگر اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔

 


٭…ہم اگر اس دولت کو اپنی محنت اور ہنر کی جادو گری قرار دیتے اور اسے اللہ کا فضل نہیں سمجھتے تو یہ ناشکری ہے۔ اگر ہم اس دولت کے دینی حقوق زکوۃ، صدقات اور فضول خرچی سے اجتناب وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے تو یہ بھی ناشکری ہے

آپ دیکھیے تو قرآن پاک کی ایک مختصر آیت میں اس دکھڑے کا مداوا موجود ہے۔ سورۂ ابراہیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’اور وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرما دیا تھا کہ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا،ا ور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ (آیت:7) جس قدر اللہ تعالی کی نعمتوں کی ہم پر بارش برس رہی ہے، ہم پر اسی درجے کا شکر کرنا بھی واجب ہے۔

آپ اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں غور فرمائیے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں، پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں!؟‘‘(صحیح مسلم)

آج ہماری الجھنوں کا اصل سبب ہماری ناشکری ہے۔ اوپر ذکر کی گئی آیت کے مطابق ناشکروں سے اللہ تعالی سخت ناراض ہوتے ہیں۔ فرمایا: ’’ا ور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘ سورۂ نساء میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔‘‘(آیت:147)

ناشکری اللہ تعالی کو کس قدر ناپسند ہے۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالی نے قوم سبا کو اسی ناشکری کے باعث تباہ و برباد کیا۔ آیت مبارکہ ہے:’’تو وہ کہنے لگے: اے ہمارے رب!ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں(عِبرت کے) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے منتشر کر دیا۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (السباء ، 34)

ہم اگر اس دولت کو اپنی محنت اور ہنر کی جادو گری قرار دیتے اور اسے اللہ کا فضل نہیں سمجھتے تو یہ ناشکری ہے۔ اگر ہم اس دولت کے دینی حقوق زکوۃ، صدقات اور فضول خرچی سے اجتناب وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے تو یہ بھی ناشکری ہے۔ ہم اگر حرام سے مکمل گریز اور حتی الامکان حلال کے لیے کوشاں نہیں ہیں تو یہ بھی نافرمانی اور ناشکری ہے۔ اگر ہم فرائض و واجبات ادا نہیں کر رہے تو یہ بھی ناشکری اور نافرمانی ہے۔ اگر ہمارے مالی معاملات کسی قسم کی گڑبڑ اور ہیراپھیری کا شکار ہیں تو اللہ تعالی کو یہ سخت ناپسند ہے۔

ہمیں اپنی ان چھوٹی یا بڑی الجھنوں سے نجات کے لیے ایک سیدھی راہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جس میں برائی، حق تلفی، اللہ سے دوری اور مذہب بیزاری ایسی کھائیاں اور گھاٹیاں نہ ہوں۔ شیطان کی چکاچوند سے خود بچ اور اپنے اہل و عیال کو بچا کر اللہ کی مانتے ہوئے چلنا ہو گا۔ یہی ہے مال و ولت اور ایمان والی نعمت کا سب سے بڑا شکر۔ اسی پر اللہ کا وعدہ ہے کہ میں اور زیادہ دوں گا۔ ہم شکر گزار بندے بنیں گے تو اللہ کی نعمتیں کبھی نہیں چھنیں گی۔ برکتوں کا سائبان ہم پہ ہر دم تنا رہے گا۔ان شاء اللہ۔