شیطان کے بھائی

’’بابا! یہ گاڑی نہیں چاہیے، مجھے۔‘‘
’’کیوں بیٹا! ابھی چھ ماہ ہی تو ہوئے ہیں، اسے خریدے ہوئے!!‘‘ ’’مارکیٹ میں اب نیا ماڈل آ چکا ہے، اس سے کہیں بہتر۔ میرے دوست بھی وہی خرید رہے ہیں، اس لیے مجھے بھی خریدنا ہی ہو گی ،بابا جانی!‘‘ ’’چلیں، ٹھیک بیٹا! میں کچھ کرتا ہوں، تمہیں تو ناراض نہیں کر سکتا ناں! آخر تم میرے اکلوتے بچے ہو۔‘‘ ٭

مزید پڑھیے۔۔۔

ناشکری سے بچیے

یہ کیا ہوتا ہے؟ جتنا بڑا مال دار، اتنا بڑا مقروض۔ جتنے زیادہ راحت کے اسباب، اتنا ہی بے سکونی کا گھپ اندھیرا۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ احساس کہ کچھ نہیں ہے۔ آمدن اور خرچ کے درمیان طویل فاصلے ہیں۔ گھر کا ماحول کاٹنے کو دوڑتا ہے تو باہر کی فضا میں دہشت سرسراتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ دولت ہوتے ہوئے بھی ہمارے نصیب میں وہ دولت کیوں نہیں ہے؟ سب کچھ ہاتھ میں ہوتے ہوئے ہم اسے ہاتھ کیوں نہیں لگا سکتے؟ بیماریوں نے ہمارے گھر کا رستہ کیوں دیکھ لیا ہے؟

مزید پڑھیے۔۔۔

عقل مند کون؟

تجارت کے اس سفر میں ہم یقینا ایک مثالی زندگی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم خواہ جتنا بھی زور لگا لیں، آج کے دور کے وسائل کے باوجود ہم مشہور عباسی بادشاہ ہارون رشید کی امارت اور ثروت کو نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سلطنت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ آج کے دور کے کئی امریکا اس کی مٹھی میں تھے۔ مگر اس کے باوجود دانائی کا ایک راز اور کامیابی کا اصل معیار، اسے سمجھ نہ آسکا۔ اگر اسے کسی نے سمجھایا تو وہ بظاہر مجنون نظر آنے والا ایک خدامست درویش تھا۔

مزید پڑھیے۔۔۔

دولت، ایک فتنہ!

’’فتنہ‘‘ کا معنی ہے: ’’آزمائش۔‘‘ آدمی کو جس چیز کے ذریعے آزمایا جاتا ہے، اس میں نفع اور ضرر دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ مال و دولت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے۔ اللہ تعالی نے اسے ’’فتنہ‘‘کہا ہے۔ دولت کے بے شمار فوائد ہیں۔ بعض وجوہ سے اس کو کمانا اور حاصل کرنا لازمی بھی ہے۔ دوسری جانب اس کی مضرتیں اور نقصانات بھی لاتعداد ہیں۔

 

مزید پڑھیے۔۔۔

’’میں‘‘ یا ’’آپ‘‘

اگر یہ سچ ہے کہ دولت اندھا کرتی ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ دولت اندھا کرنے کے بعد گڑھے میں بھی گراتی ہے۔ یہی وجہ ہے ایسا بہت کم ہے کہ آدمی دولت ملنے کے بعد اپنے سراپے اور آپے سے باہر نہ نکل جاتا ہو۔ رویے میں تبدیلی آتی ہے۔ احساس اور حساسیت کی شمع بجھ کر رہ جاتی ہے۔ اخلاقیات کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ آدمی انسان اور انسان میں فرق کرنے لگتا ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔

سادگی بڑے پن کی اصل علامت

’’میں ایک دیہاتی غریب کا بیٹا۔ میرے والد نے سڑکوں پر بجری ڈھو کر گزارا کیا۔ مجھے بہت ساری نیک تمناؤں کے ساتھ، بڑے چاؤ سے پڑھایا سکھایا گیا۔ میں ہر کتاب کا اگلا ورق الٹتے ہوئے ایک نیا سپنا تراشتا۔ میں نے محنت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بس ایک ہی سوچ تھی: خود اور اپنے خاندان کو زندگی کے عذابوں سے نجات دلا کے رہوں گا۔ میں انہیں ہر آسائش مہیا کروں گا۔ انہیں ایک مثالی زندگی بخشنے کی پوری کوشش کروں گا۔

مزید پڑھیے۔۔۔